جماعت اخوان المسلمین کی بنیاد ۱۹۲۸ میں حسن البنّا کے ہاتھوں رکھی گیٔ جو اس وقت شہر اسماعلیہ میں مدرسہ ابتدایٔہ میں مدرس تھے جب مصر برطانوی حکومت کے قبضہ میں تھا
جماعت اخوان المسلمین کا ظہور سماجی آبادیاتی بلدی معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کے ایک ایسے مجموعہ کے نتیجہ میں ہوا جس کا مشاہدہ مصر نے بیسویں صدی کے ابتدایٔ ثلث میں کیا۔اس دوران جماعت نے متعدد دینی اور معاشرتی تحریکات کو زندہ کرنے کہ لیے متحرک حالات پیدا کیے جس نے حکومتی طبقہ کے معاشرتی مسائل کا مؤثر حل تلاش کرنے میں ناکامی کے بعد اس صورت حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی .
اس وقت جماعت اخوان المسلمین نے اس اجتماعی معاشرتی سیاسی اور معاشی بہران کا فائدہ اٹھایا بیسویں صدی کے ابتدائی ثلث میں مصر نے جسکا مشاہدہ کیا تھا۔اوران ناداراور فقیر طبقوں کو اپنا حامی بنانے میں کامیابی حاصل کرلی جو جماعت کے اغراض و مقاصد پر ےقین رکھتے تھے۔
مصری معاشرہ کی اکثریت جو بیسویں صدی کے ابتدائی ثلث سے پسماندگی اور فقر کی حالت میں زندگی بسر کر رہی تھی اس کی سماجی حیثیت پر خراب معاشی صورتحال اور معاشرتی عدم انصاف اور شدید طبقاتی تفاوت کا گہرا اثر ہوا۔اور اس صورت حال نے اخوان المسلمین کے ظہور کی راہ ہموار کردی۔
بیسویں صدی کے ابتدائی ثلث میں مصر میں مشنری تحریکات کی سرگرمیاں اخوان المسلمین کے قیام کی ایک اہم وجہ تھی ۔ لھٰذا جماعت کے بانی حسن البنّا نے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور وہ ان تحریکات کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے۔
حسن البنّا اور اُنکی جماعت کے لائحہ عمل میں تعلیم ایک اہم کڑی تھی جسکو وہ لوگ اپنے مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے اور زیادہ تر اس صورتحال کی بہتری کےلیے استعمال کرنے لگے جو برطانوی دور حکومت میں مصر کی ہوئی تھی۔ لھٰذا اخوان المسلمین کا اپنے افکار اور آئیڈیولوجی کو نشر کرنے کے لیے تعلیم بہترین وسیلہ رہا۔
فکری سیاسی اور اجتماعی نشاط کے اعبتار سے تاریخ کا وہ دور ممتاز ہے جسمیں جماعت اخون المسلمین کا ظہور ہوا۔ شناختی مسئلہ اور جدید مسائل اور حکومتی نظام اور علمی ترقی کے معاملہ میں جو مختلف لہریں اٹھ رہیں تھیں انکے درمیان جماعت اخوان المسلمین نے کام کیا اور انکے افکار و نظریات کا جدید طوفان مغرب کے سامنے واضح تھا۔ اور ایسی دینی جماعتوں کے ظہور کے لیئے ایک اہم کردار ادا کر رہا تھا جو ان مقاصد اور افکار سے ٹکر لیں اور ایک ایسا متبادل اسلامی نظریہ پیش کریں جو سیاسی مقاصد سے خالی نہ ہو
اخوان المسلمین کےافکار ونطریات کی جڈیں دور تک پھیل گئیں۔
جیسے :ابن تیمیہ اور خوارج کے نطریات اور قریبی افکار جو اسلامی نشأۃ کی بنیاد پر مرکوز تھیں جیسے جمال الدین الافغانی محمد عبدہ اور محمد رشید رضا اور ابو الاعلی مودودی کے نظریات
جماعت اخوان المسلمین اپنی ابتداء سے ہی ایک مظبوط انتظامی ڈانچہ میں منظم ہے۔ علاقائی اور مرکزی اداروں پر مشتمل اسکے مختلف منظم شعبہ ہیں۔ ان اداروں میں سے ایک ادارہ نے "النظام الخاص" کے نام سے ایک فوجی نظام قائم کیا۔ اور اخوان المسلمین کا سماجی تعلیمی اور معاشی سرگرمیوں کا نئے ممبروں کے لیئے تعلیمی پروگرام کے ساتھ ایک نیٹورک ہے جو نظم و ضبط اور باہمی روابط پر منحصر ہے یہ خفیہ نیٹورک اور رابطہ کا نظام آج تک قائم ہے۔
ابتدائی مرحلہ ۱۹۸۲ سے ۱۹۵۲ کے انقلاب تک جماعت اخوان المسلمین جماعت کے بانی حسن البنّا کے قدیم افکار سے متاثر تھی جو قانونی چارہ جوئی اور اسلامی معاشرہ بنانے اور مستقل طور پرمختلف مراحل میں اسلامی حکومت قائم کرنے پر مرکوز تھی
جماعت کے مرشد سید قطب نے ایک متشدد اور مصر میں ابھرتی ہوئی قوم پرستی کو مسترد کرنے والی فکر پیش کی۔ اُس وقت وہ پہلے اسلامی شخص تھے جنہوں نے مغرب کے خلاف ایک ثقافتی جنگ کا اعلان کیا۔ انکا یہ نظریہ کہ اسلامی معاشرے دور جہالت کی طرف پلٹ گئے تھے جیساکہ ظہور اسلام سے قبل انکی صورت حال جزیرۃ العرب میں تھی۔
اور اپنی تحریروں میں ان کا نقائص ظلم اخلاقی انحطاط اور انسانی تسلط اور اقتدار کی تصویر کشی کرنا انکی مصلحتوں اور نظریہ کے عین مطابق ہے ۔
گرچہ بہت سی اہم شخصیات ہیں جنہوں نے جماعت اخوان المسلمین اور اسکےعام مقاصد کی تشکیل میں کسی حد تک تعاون کیا ہے۔ اور یقینا حسن البنّا اور سید قطب کو ان شخصیات میں سب سے اہم سمجھا جا سکتا ہے۔سب سے پہلے حسن البنّا نے تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسکے عام مقاصد طے کیے دوسرے بنیادی خیالات کے ساتھ جن سے بیشتر دہشت گرد تنظیموں نے دہشت گردی کرنے کی مشق کی اور منظم حکومتوں کا تختہ الٹنے کا جوازتلاش کیا۔
حسن البنّا کے افکار و نظریات اخوان المسلمین کے انتظامی ڈھانچہ کے ستون ہیں جس نے ان نظریات اور اصولوں کو زمین پر جمانے کی کوشش کی۔ خاص طور پر اس کے سیاسی منصوبوں کو اقتدار اور دنیا کے گوشوں میں پہنچانے کے لیے ۔
Reviews (0)